ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک کسان پڑوس کے گاؤں میں ایک امیر آدمی سے ملنے کے بعد جنگل کے راستے اپنے گاؤں کی طرف جا رہا تھا۔ وہ امیر آدمی بڑا سخی تھا وہ فقیروں اور نیک لوگوں کی بڑی عزت کیا کرتا تھا اور ان کو اشرفیوں اور قیمتی تحفے تحائف سے نوازتا تھا۔
اُس امیر آدمی نے غریب کسان کو بھی ڈھیر ساری سونے کی اشرفیاں تحفے میں دی تھیں۔ اتنے سارے سونے کے سکّے پا کر وہ غریب کسان بہت خوش تھا۔ خوشی کے مارے وہ گنگناتے ہوئے جلدی جلدی چل رہا تھا تاکہ جنگل کا خطر ناک راستہ جلد از جلد پار کر سکے اور اپنے گھر پہنچ جائے۔
اپنی دُھن میں مگن اس کسان کو اچانک اُس وقت شدید جھٹکا لگا جب اُس نے اپنے سامنے ایک ریچھ کو دیکھا۔ اب وہ بڑی مشکل میں پھنس گیا تھا۔ اُسے کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی کہ وہ اب کیا کرے؟ آخر کار وہ پیچھے کی طرف بھاگنے لگا۔ جب ریچھ نے اس کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اسکے پیچھے بھاگنے لگا۔
دوڑتے دوڑتے کسان بری طرح تھک گیا۔ اس کےپاؤں کا نپنے لگے۔ تھکن کے مارے وہ ایک جگہ کھڑا ہو گیا۔ اسی دوران میں ریچھ بھی اُسکے پاس پہنچ گیا۔ اب دونوں آمنے سامنے تھے ۔ کسان سوچ میں پڑ گیا کہ اگر اپنی جان بچانی ہے تو اسے ریچھ سے لڑنا پڑے گا۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ریچھ کسان کے اوپر کود گیا۔ کسان بھی اس سے دو بہ دو لڑنے کے لیے بالکل تیار ہو گیا۔ لڑتے لڑتے کسان کے ہاتھ میں اچانک ریچھ کی دم آگئی۔ کسان نے پوری طاقت سے دم کو پکڑ کر گول گھمانا شروع کر دیا۔ کسان اور ریچھ دونوں گھومتے رہے۔ ایسے میں کسان کی کمر سے بندھی ہوئی تھیلی میں سے سونے کی اشرفیاں نکل نکل کر چاروں طرف گرنے لگیں۔
کسان کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔ اس لئے اس کو سونے کے سکّوں کے اس طرح گرنے کا کوئی افسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کسی طرح چھٹکارا مل جائے۔ و ہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر اُس نے ریچھ کی دم چھوڑ دی تو وہ اس کو جان سے مار ڈالے گا۔
کسان اسی سوچ میں ڈوبا رہا کہ ریچھ کی دم کو پکڑ کر اسی طرح گول گھماتے رہنے سے ہی اسکی جان بچ سکتی ہے۔ کچھ دیر تک وہ ایسا ہی کرتا رہا کہ اُدھر سے ایک لکڑ ہارے کا گزر ہوا۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے سونے کے سکوں اور گول گھومتے کسان اور ریچھ کو دیکھ کر اُسے بہت حیرت ہوئی وہ ان دونوں کے قریب آیا اور کھڑے ہو کر انہیں غور سے دیکھنے لگا، پھر اس نے کسان سے پوچھا: ” یہ آپ کیا کر رہے ہیں اور چاروں طرف سونے کے سکے کیوں بکھرے ہوئے ہیں؟“ کسان نے لکڑ ہارے کی آواز سن کی اُسکی طرف دیکھا۔
اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی ۔ اس نے اُسی طرح گول گول گھومتے ہوئے کہا: ”اے لکڑ ہارے! یہ جو ہر طرف تم سونے کے سکّے بکھرے ہوئے دیکھ رہے ہو، یہ ریچھ کی دم کو پکڑ کر اس طرح گول گول گھمانے سے نکلے ہیں“ لکڑ ہارے کے دل میں لالچ آگیا، اس نے کہا مجھے بھی ریچھ کی دم پکڑا دیجیے، تاکہ میں بھی اسے گھما کر کچھ سونے کے سکّے حاصل کر سکوں۔
کسان کچھ دیر تو یوں ہی دکھاوے کے لیے ٹالتا رہا۔ پھر اس نے لکڑ ہارے کو ریچھ کی دم پکڑا دی اور سونے کے سکوں کو جلدی جلدی جمع کر کے وہاں سے بھاگ گیا۔ لالچی لکڑہارا سونے کے سکوں کے لیے اسی طرح پریشانی کے عالم میں ریچھ کی دم پکڑ کر گول گھومتا رہا۔ اُسے سکّے نہ ملنے تھے نہ ملے۔ لیکن ہاں! جب وہ بُری طرح تھک گیا تو اُس کو لالچ کی سزا مل گئی یعنی بھالو نے اسے مار کر کھا لیا۔
رائیٹر: محمد ابراہیم خان makeonesmile.blogspot.comکسان اسی سوچ میں ڈوبا رہا کہ ریچھ کی دم کو پکڑ کر اسی طرح گول گھماتے رہنے سے ہی اسکی جان بچ سکتی ہے۔ کچھ دیر تک وہ ایسا ہی کرتا رہا کہ اُدھر سے ایک لکڑ ہارے کا گزر ہوا۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے سونے کے سکوں اور گول گھومتے کسان اور ریچھ کو دیکھ کر اُسے بہت حیرت ہوئی وہ ان دونوں کے قریب آیا اور کھڑے ہو کر انہیں غور سے دیکھنے لگا، پھر اس نے کسان سے پوچھا: ” یہ آپ کیا کر رہے ہیں اور چاروں طرف سونے کے سکے کیوں بکھرے ہوئے ہیں؟“ کسان نے لکڑ ہارے کی آواز سن کی اُسکی طرف دیکھا۔
اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی ۔ اس نے اُسی طرح گول گول گھومتے ہوئے کہا: ”اے لکڑ ہارے! یہ جو ہر طرف تم سونے کے سکّے بکھرے ہوئے دیکھ رہے ہو، یہ ریچھ کی دم کو پکڑ کر اس طرح گول گول گھمانے سے نکلے ہیں“ لکڑ ہارے کے دل میں لالچ آگیا، اس نے کہا مجھے بھی ریچھ کی دم پکڑا دیجیے، تاکہ میں بھی اسے گھما کر کچھ سونے کے سکّے حاصل کر سکوں۔
کسان کچھ دیر تو یوں ہی دکھاوے کے لیے ٹالتا رہا۔ پھر اس نے لکڑ ہارے کو ریچھ کی دم پکڑا دی اور سونے کے سکوں کو جلدی جلدی جمع کر کے وہاں سے بھاگ گیا۔ لالچی لکڑہارا سونے کے سکوں کے لیے اسی طرح پریشانی کے عالم میں ریچھ کی دم پکڑ کر گول گھومتا رہا۔ اُسے سکّے نہ ملنے تھے نہ ملے۔ لیکن ہاں! جب وہ بُری طرح تھک گیا تو اُس کو لالچ کی سزا مل گئی یعنی بھالو نے اسے مار کر کھا لیا۔
Moral Lesson : اخلاقی سبق
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ لالچ بُری بلا ہے اور ہمیں کسی کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔ جیسے لکڑ ہارا نے سونے کے سکّوں کی خاطر لالچ کی اور کسان کے دھوکے میں آ گیا۔ اُسے نہ تو سونے کے سکّے ملے اور نہ ہی اپنی جان بچا سکا۔ بلکہ بھالو نے اُسے مارکر کھا لیا۔
تو پیارے بچو! ہمیں نہ تو کسی کو دھوکہ دینا چاہیے اور نہ ہی لالچ کی خاطر کسی کے دھوکے میں آنا چاہیے۔ اگر آپ اس طرح کی اور بھی اچھی اچھی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچےدی گئی لِسٹ میں سے اپنی پسند کی کہانی پر کلک کریں۔
I hope, you liked this funny story. You can read more interesting Funny Stories, Humorous Stories, Funny Short Stories, Interesting Stories in Urdu, Urdu Short Stories, Story in Urdu Funny, Urdu Stories for Kids, Funny Stories for Kids, and more interesting stories just right here: Funny Stories, Stories for Kids and Funny Posts.